قربانی کا نصاب کیا ہے

 سوال: آپ کی بارگاہ میں گزارش ہے کہ یہ  بتائیں کہ قربانی کا نصاب کیا ہے، اور قربانی کس پر واجب ہے۔ مکمل رہنمائی فرمائیں۔ سائل: عبد الرحمن، یوپی انڈیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب: قربانی ہر اس مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو بالغ ہو، مقیم ہو اور قربانی کے نصاب کا مالک ہو۔ قربانی واجب ہونے اور زکات واجب ہونے کے نصاب میں فرق ہے، قربانی کے نصاب کا جو مال اور رقم متین ہے یا حاجت اصلیہ سے زائد سے جو چیزیں ہیں، قربانی واجب ہونے کے لیے ان پر سال گزرنا ضروری نہیں ہے، اور مال کا تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، چناں چہ اگر کوئی شخص قربانی کے دنوں میں قربانی کے نصاب کا مالک ہو گیا تو اس پر قربانی واجب ہے،  جب کہ زکات واجب ہونے کے لیے نصاب پر سال گزرنا اور مال تجارت ہونا ضروری ہے۔ 

 قربانی کا نصاب

قربانی کا نصاب یہ ہے کہ حاجت اصلیہ کے علاوہ جو شخص دو سو درہم ( یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ) یا بیس دینار ( یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ) کا مالک ہو، یا حاجت اصلیہ کے علاوہ اتنی نقدی اور مال و دولت کا مالک ہو، یا ضرورت کے علاوہ کسی ایسی چیز کا مالک ہو، جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا کے برابر ہو، وہ مالک نصاب ہے اور اس پر قربانی واجب ہے۔ اگر قربانی نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ 

رہنے کا مکان، سواری، لباس اور گھر کا ضروری سامان حاجت اصلیہ میں شامل ہے۔ فقہاے کرام فرماتے ہیں:

” ایک شخص کے لیے دو مکان، ایک گرمی کے موسم کے لیے اور ایک ٹھنڈی کے موسم کے لیے یہ ضرورت میں داخل ہے، نیز باورچی خانہ، بیت الخلا اور غسل خانہ وغیرہ ضرورت میں داخل ہے۔ اسی طرح ایک آدمی کے لیے تین عدد کپڑا حاجت اصلیہ میں داخل ہے، ایک گھر میں پہننے کے لیے، ایک کام کاج کرتے وقت پہننے کے لیے اور ایک جمعہ، عیدین اور دیگر موقع پر پہننے کے لیے۔

اگر کسی شخص کے پاس دو گھر سے زائد کوئی گھر ہے، یا تین کپڑے سے زیادہ کوئی کپڑا ہے تو وہ حاجت اصلیہ میں شامل نہیں ہے، قربانی کے نصاب میں اسے کی بھی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔ قربانی کا نصاب اگر کم پڑ رہا ہے لیکن ان زائد مکان یا زائد کپڑوں کی قیمت کو بقیہ مال میں جوڑا جائے تو قربانی کا نصاب مکمل ہو جا رہا ہے، تو وہ شخص مالک نصاب ہے۔

قربانی واجب ہونے کی شرائط

قربانی واجب ہونے کی چند شرطیں ہیں:

  1. مسلمان ہونا یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں۔
  2. آزاد ہونا، غلام پر قربانی واجب نہیں۔
  3.  مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں۔ 
  4. مالداری یعنی مالک نصاب ہونا، فقیر پر قربانی واجب نہیں۔
  5. بالغ ہونا۔

اس حوالے سے بدائع الصنائع میں ہے: ” فمنھا: الاسلام، فلا تجب علی الکافر، لانھا قربۃ، و الکافر لیس من اھل القرب۔ کچھ عبارت کے بعد دوسرے صفحے پر ہے: و منھا: الحریۃ فلا تجب علی العبد۔ و منھا: الاقامۃ، فلا تجب علی المسافر۔ اس کے بعد دوسرے صفحے پر ہے: و منھا: الغنی لما روی عن رسول اللہ ﷺ انہ قال: ” من وجد سِعۃ فلیضحّ “، شرط ( علیہ السلام) السعۃ و ھی الغنی۔ 

(بدائع الصنائع، الجزء السادس، کتاب التضحیۃ، فصل فی شرائط الوجوب،ِ ص281، 282،283، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

اور بہار شریعت میں قربانی کی مذکورہ بالا شرطیں بیان کرنے کے بعد مصنف بہار شریعت، صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: 

” ظاہر الروایہ یہ ہے کہ نہ خود نابالغ پر واجب ہے اور نہ اس کی طرف سے اس کے باپ پر واجب ہے اور اسی پر فتوی ہے۔”

( بہار شریعت،جلد3، حصہ پندرہ، اضحیہ یعنی قربانی کا بیان، مسئلہ3،  ص332، مکتبہ دعوت اسلامی)

پتہ چلا کہ قربانی کا نصاب حاجت اصلیہ سے زائد وہ مال و دولت ہے، جو قربانی کے دنوں میں کسی مسلمان کے پاس موجود ہو، اور اس کی قیمت مذکورہ سونا یا چاندی کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے زیادہ ہو، نیز اس پر سال گزرنا بھی ضروری نہیں ہے، لہذا اگر مزکورہ شرطیں پائی جائیں تو وہ مالک نصاب ہے اور اس پر قربانی واجب ہے۔ 

قربانی کا جانور تندرست اور توانا ہونے کے ساتھ ہر عیب سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔

عام سوالات (FAQs)

1.قربانی کا نصاب کیا ہے؟

← قربانی کا نصاب حاجت اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہونا۔ یا اتنی مال و دولت یا مال تجارت یا روپے پیسے کا مالک ہونا۔ 

2۔ گرام میں ساڑھے باون تولہ چاندی کتنی ہوتی ہے؟

← چھ سو ترپن گرام، ایک سو چوراسی ملی گرام۔  (653.184g)

3۔ ساڑھے سات تولہ سونا کتنا ہوتا ہے؟

←ترانوے گرام، تین سو بارہ ملی گرام۔ (93.312g)

4۔ حاجت اصلیہ کسے کہتے ہیں؟

← انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ان کو حاجت اصلیہ کہتے ہیں۔ جیسے رہنے کے لیے گھر، پہننے کے کپڑے، موٹر گاڑی، موبائل، کام کے اوزار، مشینیں وغیرہ۔

5۔ کیا مقروض شخص پر قربانی ہے؟

 ← اگر قرض کی رقم اس کے مال سے الگ کرنے کے بعد بھی وہ مالک نصاب رہتا ہے تو اس پر قربانی واجب ہے، ورنہ واجب نہیں۔ 

6۔ ایام قربانی کتنے دن ہیں؟

← ایام قربانی تین دن ہیں، 10، 11، اور 12 ذو الحجہ۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ قربانی کا پہلا دن، گیارہویں تاریخ دوسرا دن اور بارہویں تاریخ تیسرا دن ہے۔ صرف انہی تین دنوں میں قربانی ہو سکتی ہے۔ اس دنوں کے علاوہ قربانی جائز نہیں۔

7۔ قربانی کب واجب ہوئی؟

← قربانی 2 ہجری میں ذی الحجہ کے مہینے میں واجب ہوئی۔

قربانی کا نصاب جو اوپر مذکور ہوا اس کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ قربانی اس شخص پر واجب ہے، جس میں قربانی کی مذکورہ تمام شرائط پائیں جائیں، لہذا اگر ایام قربانی میں مالک نصاب نہیں ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب۔

کتبہ محمد اشرف رضا مصباحی

15/ جون 2025 بروز اتوار

Leave a Comment