سوال: مفتی صاحب کی بارگاہ میں سوال ہے کہ اندھےاور کانے جانور کی قربانی کے بارے میں کیا حکم ہے، کیا ان کی قربانی ہو جائے گی یا نہیں ؟ دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔ سائل: عبد اللہ ۔ مقام بستی اترپردیش، انڈیا
Table of Contents
الجواب بعون الملک الوھاب: قربانی اسلام کا ایک اہم شعار ہے جو ہر سال 10 ذوالحجہ کو پوری دنیا میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے، یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے ، اور یہ سنت امت محمدیہ کے لیے باقی رکھی گئی، اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔
(فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرْ )
“اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو”
(پارہ 30، سورۃ الکوثر، آیت:2 )
اور جامع ترمذی کی حدیث پاک ہے: “حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دسویں ذو الحجہ کو انسان کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پیارا نہیں، اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔ اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بارگاہ میں مقبول ہو جاتا ہے، لہذا قربانی خوش دلی سے کرو۔
(جامع الترمذی، کتاب الاضاحی، باب ماجاء فی فضل الاضحیۃ، ج3، ص:162، الحدیث1498)
شریعت اسلامیہ میں قربانی کے جانور کے لیے اہم شرط اس کا تندرست ہونا اور عیب سے خالی ہونا ہے، اگر کسی جانور میں تھوڑا عیب ہو تو قربانی درست ہو جائے گی مگر زیادہ عیب ہو تو قربانی نہیں ہوگی۔
اندھے اور کانے جانور کی قربانی کا حکم
اندھے جانور کی قربانی
وہ جانور جس کی دونوں آنکھیں خراب ہوں یعنی جسے بالکل دکھائی نہیں دیتا اسے اندھا کہتے ہیں۔
حکم
ایسے جانور کے بارے میں شریعت مطھرہ کا حکم یہ ہے کہ اس کی قربانی جائز نہیں ہے، اگر کسی نے اندھا جانور قربان کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی۔
کانے جانور کی قربانی
وہ جانور جس کی صرف ایک آنکھ خراب ہو اور دوسری آنکھ بالکل صحیح ہو، یعنی وہ صرف ایک آنکھ سے دیکھتا ہو اسے کانا کہتے ہیں۔
حکم
اگر اس کا کانا پن ظاہر ہو یعنی ایک آنکھ سے بالکل ہی دکھائی نہ دیتا ہو تو ایسے کانے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ شریعت نے ایسے عیب والے جانور کی قربانی سے بھی منع کیا ہے۔
یہ فتوی بھی پڑھیں قربانی کا نصاب کیا ہے؟
حوالاجات
اول: ہدایہ جلد 4 میں ہے: ” و لا یضحی بالعمیاء و العوراء و العرجاء التی لا تمشی الی المنسک و لا العجفاء، لقولہ علیہ السلام: ” لا تجزی فی الضحایا اربعۃ، العوراء البین عورھا، و العرجاٰ البین عرجھا، و المریضۃ البین مرضھا، و العجفاء التی لا تنفی “۔
کوئی شخص قربانی نہ کرے اندھی جانور کی، نہ کانی کی اور نہ اس لنگڑی جانور کی جو چل کر قربان گاہ تک نہ جا سکے، اور نہ بہت دبلی جانور کی، اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قربانی میں چار جانور جائز نہیں ہیں، ایک وہ کانی جس کا کانا پن ظاہر ہو، دوسری وہ لنگڑی جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، تیسری وہ بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، چوتھی وہ دبلی جانور جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو۔
( الھدایۃ، جلد:4، کتاب الاضحیۃ، ص: 447، مکتبہ رحمانیہ)
دوم: اور فتاوی عالمگیری میں ہے: ” لا تجوز العمیاء و العوراء البین عورھا” یعنی اندھے اور کانے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
( فتاوی عالمگیری، جلد5، الباب الخامس فی بیان محل اقامۃ الواجب، ص297، مطبوعہ مصر )
سوم: بدائع الصنائع میں ہے: ” احدھما: سلامۃ المحل عن العیوب الفاحشۃ، فلا تجوز العمیاء، و العوراء البین عورھا۔ و العرجاء البین عرجھا، و ھی التی لا تقدر تمشی برجلھا الی المنسک، و المریضۃ البین مرضھا ” ۔
بدائع الصنائع کی مذکور عبارت سے بھی یہی پتہ چلا کہ اندھے اور کانے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ نیز یہ بھی پتا چلا کہ لنگڑے اور بیمار جانور کی قربانی بھی ناجائز ہے۔
(بدائع الصنائع، الجزء السادس، کتاب التضحیۃ، ص312، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
چہارم: فقہ حنفی کی مشہور کتاب بہار شریعت میں ہے: ” اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں اور کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو اس کی بھی قربانی ناجائز”۔
( بہار شریعت،جلد3، حصہ پندرہ، قربانی کے جانوروں کا بیان، ص341، مکتبہ دعوت اسلامی)
مذکورہ تمام فقہی عبارات کا خلاصہ یہی ہے کہ اندھے اور کانے جانور کی قربانی ناجائز ہے، لہذا اگر کسی مالک نصاب نے ایسے ناقص جانور کی قربانی کی تو اس کی قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح وہ لنگڑا جانور جو قربان گاہ تک چل کر نہ جا سکے اور بیمار جانور کی قربانی بھی جائز نہیں ہے، قربانی کے لیے ایسے جانور کا انتخاب کریں، جو صحت مند، تندرست اور ہر عیب سے پاک ہو۔ اور صرف رضاے الہی کے قربانی کریں۔ نام و نمود اور دکھاوے سے بچیں۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
کتبہ: مفتی محمد اشرف رضا مصباحی